ہندوستان کی آزادی میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی خواتین کا تعاون
آزادی ایسی نعمت ہے جس کو پانے اور باقی رکھنے کی جستجو ہر باشعور قومیں کرتی ہیں۔ کئ برسوں ہمارا ملک ہندوستان بھی انگریزوں کی غلامی کی زنجیرمیں جکڑا رہا۔آزادی کی طویل جد وجہد کے بعد مجاہدین آزادی کے سامنے انگریز بے بس ہوٸے اور یہاں سے رخت سفر باندھا۔ آج ہندوستان آزاد ہے اور آج ہم سب آزاد ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمارا ملک جو جنت نظیر ہے، اس جنت کے حصول کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔لیکن اس ہندوستان کو آزادی دلانے میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں ہیش کیں۔ ملک کی آزادی کے لٸے کیا ہندو کیا مسلمان سماج کے ہر طبقہ کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور وطن کی خاطر آزادی کی لڑاٸی لڑی اور اپنی جانیں قربان کیں۔ غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے کے لئے اس ملک کے مرد و خواتین نے ایک ساتھ اپنی جان و مال کی قربانیاں پیش کیں۔
ہم جب کبھی ہندوستان کی جنگ آزادی کی بات کرتے ہیں تو 1857سے 1947تک کی 90سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی سے 15اگست 1947 تک کی تاریخ جدوجہد اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ تاریخ کی اس کتاب میں کوئی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ 90برسوں کے اس طویل عرصے میں کئی اہم موڑ آئے۔ اس میں جلیان والا باغ بھی ہے اور کاکوری کا مشہور واقعہ بھی۔ اس میں ڈانڈی مارچ، عدم تعاون کی تحریک، چوری چورا حادثہ، سائمن کمیشن کا بائیکاٹ اور انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک جیسے کئی اہم موڑ ہیں۔ لیکن ہر موڑ پہ خواتین ضرور نظر آتی ہیں۔ کہیں تو خواتین خود گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں لڑتی ہیں اور کہیں تحریک کو سمت و رفتار فراہم کرنے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ایک اور بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جنگیں بھی لڑی گئیں اور تحریکیں بھی چلتی رہیں اور کچھ خواتین قلم کی طاقت کا سہارا لیتی رہیں۔
ملک کی آزادی میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ کے اوراق خاتون مجاہدین آزادی کے کارناموں سے بھی بھرے پڑے ہیں ۔ رانی لکشمی باٸی ، سروجنی نایٸڈو ، ارونا آصف علی، بی اماں سمیت بیگم حضرت محل کا نام بھی تاریخ کے اوراق میں سنہرے حرفوں میں لکھا گیا ہے ۔
*بیگم حضرت محل زوجۂ واجد علی :*
یہ جنگ آزادی کی اولین سرگرم عمل خاتون رہنما تھیں۔ بیگم حضرت محل کا نام زبان پر آتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ 1857- 1858 کی جنگ آزادی میں صوبۂ اودھ سے حضرت محل کی ناقابل فراموش قربانیاں اور جدوجہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں رقم رہے گی کہ کس طرح ایک عورت ہوتے ہوۓ انھوں نے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیٸے اور انگریز اودھ پر قبضہ کرنے کا خواب پوراکرنے میں ناکام رہے ۔ بیگم حضرت محل آخری لمحے تک اودھ کو بچانے کے لٸے پیش پیش رہیں ۔ اپنی طاقت سے انگریزوں کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اودھ پر قدم جمانا ان کے لٸے آسان نہیں ہوگا۔ جب برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کرکے کلکتہ بھیج دیا، اس وقت حضرت محل نے حکومت کی کمان سنبھالی اور ایک نںۓ اوتار میں سامنے آئیں۔ انھوں نے محل میں بیٹھ کر صرف پالیسیاں نہیں بنائیں بلکہ جنگ کے میدان میں اتر کر اپنے جوہر بھی دکھائے، اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں اور اس طرح وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب جنگ آزادی میں ایک عظیم قائد بن کر ابھریں۔ بعد میں وہ نیپال چلی گئ اور آخری دم تک اودھ کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں لگی رہیں ۔ ان کی موت 1879 میں نیپال میں ہوٸی۔
*رانی لکشمی بائی :*
خواتین مجاہدین آزادی میں دوسرا اہم نام جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا ہے، جھانسی کی رانی لکشمی بائی آج بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بہادری، دلیری اور شجاعت کا استعارہ بن کے زندہ ہے۔ جو اُترپردیش کے وارانسی علاقے میں پیدا ہوئیں، اصلی نام مُنّی کرنیکا ہے۔ جھانسی کے راجہ گنگا دھر راؤ سے شادی ہوئی، شوہر کی وفات کے بعد جھانسی ریاست کی ناظم مقرر ہوئیں، انگریزوں نے اُن کے لئے پالک لڑکے دامودر راؤ کو وارث ماننے سے اِنکار کرکے ریاست سے بے دخل کردیا اور اُس پر قابض ہوگئے۔1857 کی جنگِ آزادی کی گھن گرج شروع ہوئی تو انگریزوں کی بدعہدی سے ناراض لکشمی بائی نے اُن کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا، اُنھیں نہ صرف جھانسی سے نکالا بلکہ آگے بڑھ کر مورانی پور اور بروا ساگر کے مقام پر شکستِ دی اور اِس طرح یہ بہادر خاتون1857 کی سب سے طاقتور قائد بن کر اُبھریں، زندگی کے آخری دم تک رانی بے جگری سے مقابلہ کرتی رہیں آخر کالپی میں پناہ لی، وہاں راؤ صاحب اور تاتیاٹوپے اپنی افواج کے ساتھ آملے، کونچ اور کالپی میں دوبارہ انگریزوں سے مقابلہ ہوا، ناسازگار صورتِ حال میں گوالیار میں پناہ لی اور پیشوا کی حکومت وہاں قائم کی اور انگریزوں سے فیصلہ کن جنگ کے لیے فوجیوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان دِنکر راؤ انگریزوں سے مل گیا، نتیجہ میں جنگ کا نقشہ پلٹنے میں دیر نہیں لگی، جواں مردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شیردل لکشمی بائی نے دم توڑ دیا لیکن انگریزوں کے آگے سر نہ جھکایا۔
*بی اماں والدہ علی برادران:*
بی اماں (عابدی بیگم زوجہ عبدالعلی خان ) کی قربانی تاریخ ہندمیں سنہرے حرفوں سے لکھی جاتی ہے۔ بی اماں تحریک آزادی میں ناقابل فراموش، لائق تعظیم کام انجام دیا ہے۔ ان کا ہر طرز عمل ہندوستانی خواتین کے لیے سبق آموز ہے جس پر چل کر ہی ہندوستان کا فروغ ممکن ہے انہوں نے صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ مستحکم ارادہ کر لیا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جتنی بھی مصیبتیں کیوں نہ اٹھانی پڑیں اس سر زمین کو انگریزوں سے آزاد کراکر ہی دم لیں گی۔ ان کی ایک بیٹی اور پانچ بیٹے تھے۔ جن میں سے دو، محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تحریک آزادی کے علمبردار ہوۓ۔1917 کے کل ہند کانفرنس کی صدارت خود بی اماں نے کیں۔ جس میں معزز ترین اور قابل قدر خواتین نے شرکت کیں جس میں کستورباگاندھی، سروجنی نائیڈو،امجدی بیگم،بیگم مختار انصاری، بیگم حسرت موہانی، بیگم کچلو وغیرہ شامل تھیں ۔ انہوں نے ایسا خطبہ دیا جسے سن کر خواتین میں جذبہ حریت پیدا ہوگیا۔ انہوں نے کبھی برقعہ نہیں اتارا وہ باحجاب رہ کر اپنے وطن کے لیے اجلاس منعقد کرتی تھیں اور گھر گھر جاکر چندہ اکٹھا کرتی تھیں ۔ اجلاس میں تقریریں ایسی کرتی تھیں جس کے اثر نے ہندوستانیوں کو اس قدر بدل دیا کہ وہ اپنے آپ کو ہند کے لیے وقف کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ دسمبر 1921 میں جب علی برادران کو انگریز سپاہیوں کے ذریعے گرفتار کیے جانے کی خبر ملی تو وہ پریشان نہیں ہوئیں بلکہ صبر و استقلال قائم رکھا۔ اسی لئے گاندھی جی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ "گرچہ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں لیکن ان کا حوصلہ جواں تھا۔" مختصر علالت کے چلتے 1924 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔
*زلیخا بیگم زوجہ مولانا آزاد :*
زلیخا بیگم حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی زوجہ محترمہ بھی نہایت با حوصلہ، بہادر خاتون تھیں۔وفاشعار اور شوہر کی خوشی پر قربان ہوجانے والی ایک مکمل مشرقی خاتوں تھیں۔آپ کو بیگم ابوالکلام آزاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کئ مصیبتوں اور صعوبتوں کا شکار ہونے کے باوجود اپنے شوہر کا دست بازو بنی رہیں اور انھیں خانگی مسائل سے ہمیشہ بے فکر رکھا۔ ان حضرات کے نزدیک اپنے مشن میں تکلیفیں برداشت کرنا، کتنا آسان تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو 1942 میں جب مولانا آزاد کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انہوں نے مہاتما گاندھی کو لکھا تھا، وہ لکھتی ہے: میرے شوہر کو محض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے،اگر ملک وقوم سے محبت کے نتیجے میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا، یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی۔ زلیخا بیگم 1940ء میں تپ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ان کی وفات 9 اپریل 1943ء کو ہوئی اور ان کو کلکتہ کے ناخدا مسلم قبرستان میں دفنایا گیا۔
تحریک آزادی کے وقت جب بہادر و بےباک، عظیم الشان ہندوستانی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو خواتین نے آگے بڑھ کر مورچہ سنبھالا۔ ایسی خواتین کی فہرست کافی طویل ہے جنھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دی۔ جنگ آزادی میں ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین نے بڑی بہادری اور دلیری سے حصہ لیا۔ کچھ خواتین تو ایسی ہیں جن کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو کچھ کو زندہ جلا دیا گیا۔ جیسے کِتور رانی چینما، بیگم رویکا، جھلکاری بائی، اُوما بائی کُنڈا پور، ساوتری بائی پھولے، بی اماں، کیپٹن لکشمی سہگل، مُو ل متی، رفیقہ بیگم، جانکی اتھی ناہپن، امّو سوامی ناتھن، متنگینی ہاجرا، نیلی سین گپتا، محمدی بیگم، جیسی ہزاروں خواتین نے بڑی بہادری اور دلیری سے حصہ لیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام خواتین کی قربانیوں کو یاد کریں اور نئی نسل کو ان کی بے مثال قربانیوں سے آگاہ کراتے رہیں۔
پھلا پھولا رہے یارب! چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے کر یہ بوٹا سینچا میرے بزرگوں نے

0 تبصرے