*خالص توبہ*
دنیا کی زندگی محض دھوکا و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہںے۔ پتا نہیں کونسے پل ، لمحہ ، وقت اور عمر میں ساتھ چھوڑ جائے بس ایسا سمجھے کہ یہ محض پانی کا وہ بوند ہںے جو ہاتھ میں تھمتا ہی نہیں اور زمین پر گر جاتا ہںے ۔۔۔۔۔۔۔ نا معلوم سا علم ہںے جو کسی بھی لمحہ کسی بھی عمر میں ساتھ چھوڑ جائے ۔۔۔ شاید اس لمحہ میں ہم بے گناہ ہو یا شاید گناہگار ۔۔۔۔۔ شاید یہی خیال و گمان میں ہو کہ نہیں یہ دنیا ایک عمر پر پہچنے کے بعد ہی دھوکہ دیتی ہںے تو ایسا تو بلکل ہی نہیں ہوتا ضروری تو نہیں کہ یہ دنیا عمر رسیدہ ہونے پر ہی دھوکہ دے یہ تو نادان عمر میں بھی ساتھ چھوڑ سکتی ہںے اور پختہ عمر میں بھی ۔۔۔۔ ہاں یہ نادان عمر میں ساتھ چھوڑے تو معافی قبول ہںے کیوں کہ اس عمر میں تو اپنے لخت جگر کو مانباپ بھی معاف کردیتے ہںے تو وہ رب تو ستّر(70) ماؤوں سے زیادہ پیار کرنے والا اور معاف کرنے والا ہںے اس عمر میں انسان نادان ہوتا ہںے لیکن یہ جو پختہ عمر ہوتی ہںے نا جسے جوانی کہتے ہںے وہ نادان نہیں ہوتی نہ اس عمر میں کیا گیا کوئی بھی گناہ نادان ہوتا ہںے اور نہ معاف کیا جاتا ہںے کیوں کہ اس عمر میں ہم نادان نہیں ہوتے بلکہ دانا ، عقل مند اور با شعور ہوتے ہیں ۔۔۔ ہم جو کوئی بھی گناہ کرے اس عمر میں وہ معافی کے قابل نہیں ہوتا اس عمر میں گناہ کے دو اصول ہوتے ہںے ایک وہ گناہ جو جانتے ہوئے کیا جائے ۔۔۔۔ اور اس اصول کے تحت کئے گئے گناہ کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا ۔۔۔۔ اور دوسرا اصول جو ہمیں پتا نہ ہو کہ یہ گناہ ہںے ۔۔۔۔ انجانے میں ہوجائے اس گناہ کو اللہ تعالیٰ ہماری نادانی اور غلطی سمجھ کر معاف کردیتا ہںے۔ لیکن۔۔۔ ہاں اے دانا انسان ! وہ جو پہلا اصول ہے نا اس میں بھی اللہ تعالیٰ معافی کو قبول کرلیتا ہںے بشرط یہ کہ معافی رب کے پیمانہ اور اصول کے مطابق ، جو رب نے بتایا ہںے۔ اور اے اشرف المخلوق تم جاننا چاہوں گے وہ طریقہ اور اصول کیا ہںے ؟! وہ طریقہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔(سورہ تحریم: آیت ٨)
خالص توبہ یہ ہے کہ۔۔۔
١.جس گناہ سے وہ توبہ کر رہا ہے، اسے چھوڑ دے۔
٢.اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔
٣۔ آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔
اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے، اس کا ازالہ کرے۔
جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے۔
یاد رکھیں محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا معنی نہیں رکھتا۔
اس طریقے کے مطابق انجام دی جائے اور خالص، صاف اور سچے دل کے ساتھ معافی مانگی جائے ، خالص توبہ کی جائے اسکے علاوہ ازیں اس کئے گئے گناہ کا رب کے پاس اعتراف کیا جائے اور سب سے اہم اصول کہ اب اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کا مضمم اور پختہ ارادہ کیا جاۓ۔۔۔۔ اس طرح کہ اگر دوبارہ قلب اور قدم ڈگمگاۓ تو یہ ارادہ انھیں روک لے ، یہ خالص دل سے کی گئی توبہ اور یہ خالص رب سے کیا گیا اعتراف ان ڈگمگاتے دل و دماغ اور قدم کو روک لے۔
ہاں ایک بات اور یاد رکھے کہ اگر کوئی گناہ سرذد ہوجائے تو اس کا اعتراف و اظہار لوگوں سے نہ کرے لوگوں سے اظہار و اعتراف کا مطلب ہںے ان لوگوں کو اپنے گناہ کا گواہ بنانا بس اعتراف کرنا ہو تو اپنے رب سے کرے۔ ہم جو یوں شب و روز پریشان اور مضطرب ہوتے ہںے نا تو یہ گناہ کی وجہ سے۔۔۔۔ یہ گناہ ہماری روح کو دھیرے دھیرے ہی پر ضرب لگاتے جاتا ہںے اور سمجھ نہیں آتا کہ یہ اضطرابی کس بات کی ہے.
یوں تو چاہیئے کہ ہر لمحہ، ہر پل، ہر وقت ہی رب سے توبہ و استغفار اور شکرگزاری کا دامن تھامے رکھے تاکہ جب یہ نا معلوم سی سانسوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاۓ تو اچھے اعمال کا دامن ساتھ رہںے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے ۔آمین

1 تبصرے
Absolutely right ..... bht hi bahtreen ..
جواب دیںحذف کریں